ایسے افراد کو ہر صورت میں کسی ماہر نفسیات سے باقاعدہ علاج کروانا چاہئے تاکہ وہ صحت مند زندگی گزار سکیں اور ماہرین نفسیات سے رائے لینے کے بعد اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں یا متبادل راستہ تلاش کریں تاکہ ترقی کے راستے مسدود نہ ہوں
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بہت جلد گھبراجاتے ہیں۔ پریشان ہوجاتے یا دوسرے لفظوں میں انہیں مختلف باتوں کی TENSION ہونے لگتی ہے یا کسی ایسی جگہ جہاں افراد کی کثیر تعداد ہو سماجی تقریبات یا دفتری تقریبات میں اعتماد کے ساتھ بات چیت نہیں کرپاتے۔ اگر کوئی دوسرے افراد سے متعارف کروائے تو نروس ہوجاتے ہیں، اپنے بارے میں بھی بات نہیں کرپاتے، الفاظ ان کے حلق میں اٹک جاتے ہیں، ماتھے پر پسینہ آجاتا ہے، دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے یا پسلیوں سے باہر آتا محسوس ہوتا ہے، سر گھومنے لگتا ہے۔ تقریب میں جو بات موضوع بحث ہو حصہ نہیں لے سکتے حالانکہ اس موضوع کے بارے میں ان کے ذہن میں بہت سے نکات ہوتے ہیں یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟ ان سب افراد کا کہنا یہی ہے کہ ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ سب کے سامنے اعتماد سے بات کریں۔ دلائل دیں، معلومات فراہم کریں مگر ایسا ہو نہیں پاتا۔اسمسئلے کو نفسیات کی زبان میں تشویش یعنی (ANXIETY) کہا جاتا ہے۔ میں آپ کو مرض کی تشویش کے بارے میں آگاہ کرتی ہوں ان معلومات کو پڑھ لینا کافی نہیں جب تک آپ ان پر عمل نہیں کریں گے شعوری کوشش اور پوری نیت سے اپنی کمزوریوں پر قابو نہیں پائیں گے سماجی سطح پر ترقی نہیں کرسکیں گے۔
تشویش کیونکر ہوتی ہے؟
.1خیالوں کی دنیا میں کھوئے رہنا.2حقیقت پسندی سے آنکھیں چرانا یا حقیقت کو قبول نہ کرنا.3اپنی ذاتی صلاحیتوں کو نہ تو تلاش کرنا اور نہ ہی انہیں صحیح استعمال کرنا.4غلط کاری کرکے تشویش میں مبتلا ہونا۔5جنسی تجربات کرکے گھبرائے رہنا اور احساس گناہ کا شکار ہوجانا.6اپنی ظاہری شکل و صورت یا رنگ کے باعث احساس کمتری میں مبتلا ہوجانا.7دولت اور رتبے سے مرعوب ہوجانا.8دوسرے افراد کی ظاہری شخصیت اور لباس سے مرعوب ہونا .9والدین کی بے جا سختی اور ان کے آپس کے لڑائی جھگڑوں کے باعث تشویش میں رہنا.10تعلیمی ناکامی کے باعث دلبرداشتہ ہوجانا۔
ایسے افراد کو روزمرہ زندگی میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ مسائل سے وہ نپٹ لیتے ہیں یا وقت گزرنے کے ساتھ ان کے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن یہ ان کی ذات پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔ کچھ مسائل اس قدر حساس اور سنجیدہ نوعیت اختیار کرلیتے ہیں کہ وہ ان کی شخصیت پر اپنی گہری چھاپ چھوڑتے ہیں۔ ایسے افراد کو ہر صورت میں کسی ماہر نفسیات سے باقاعدہ علاج کروانا چاہئے تاکہ وہ صحت مند زندگی گزار سکیں یا متبادل راستہ تلاش کریں تاکہ ترقی کے راستے مسدود نہ ہوں کیونکہ ذاتی طور پر اور سماجی طور پر آگے نہ بڑھنے والی شخصیت کمزور رہ جاتی ہے اور اس کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وقتی طور پر فرار گھبراہٹ یا تشویش کو ختم کردیگا مگر ایسا مرد پھر ہمیشہ راہ فرار کے بعد حقیقت سے بھی فرار حاصل کریگا کیونکہ تشویش اور گھبراہٹ اس کی خواہشات اور ارادوں کو ختم نہیں کرسکتیں اور جب اس کی خواہشات اور ارادے نامکمل اور ادھورے رہ جاتے ہیں تو یہی تشویش نفسیاتی امراض کی جگہ لے لیتی ہے۔
ایسی حالت میں فرد کی زندگی اور روزمرہ کے معمولات بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے گھر والے اس کے آس پاس کے افراد اس کی ہر بات پر گھبراہٹ کو پہچان لیتے ہیں اور اسے کسی مقابلے اور کام کے قابل نہیں سمجھتے۔ میں ایک بات واضح کردوں کہ یہاں جو تفصیل ہے وہ تشویش کے شکار، ذہنی امراض میں مبتلا افراد، فطین و ذہین افراد کے بارے میں ہے کیونکہ فطین اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد کم ہی دوسرے افراد سے میل جول رکھ پاتے ہیں اور خود کو عام افراد کی موجودگی میں (Uncomfortable) غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔ ان کا حلقہ احباب مختصر ہوتا ہے اور وہ سماجی تقریبات میںبہت کم شامل ہوتے ہیں۔
قارئین! آپ کو بتاتی چلوں کہ تشویش (ANXIETY) ایک نارمل عمل بھی ہے۔ اگر افراد کو کسی کام کی فکر نہ ہو، یا کسی کام کی تکمیل کے بارے پریشانی نہ ہو تو بے شمار کام ادھورے رہ جائیں۔ تشویش ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے میں، آرام و سکون اور ترقی حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر طلباءکو امتحان دینے، اگلی جماعت میں جانے، زندگی میں کچھ بننے اور صلاحیتوں کو منوانے کا احساس نہ ہو تو وہ کبھی بھی امتحانات اور پڑھائی کے بارے متفکر نہیں ہوں گے۔ ان میں مقابلے کا جذبہ بیدار نہیں ہوگا اور وہ آگے بڑھنے کے لئے زیادہ محنت نہیں کریں گے، امتحانات میں اعلیٰ پوزیشن اور اعلیٰ نمبر حاصل کرنے کے لئے وہ خوب محنت کرتے ہیں۔ وہ نوجوان جو عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں ان کے کئی خواب اور ارادے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے عزائم اور ارادوں کو پورا کرنے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ دن رات محنت کرتے ہیں۔ بہترین پرفارمنس دکھاتے ہیں۔
انہیںا سکول کالج، یا دوسرے کاموں اور تقریبات میں وقت پر پہنچنے کی تشویش ہوتی ہے خواتین کو گھر سنوانے، بچوں کی تعلیم و تربیت اور شوہر کو آرام مہیا کرنے کی تشویش، والدین کو بچوں کی صحت، تعلیم اور مستقبل کی تشویش، لڑکے اور لڑکیوں کو جاذب نظر دلکش نظر آنے کی تشویش، کھلاڑیوں کو نہ صرف اچھا کھیل کھیلنے بلکہ جیتنے کی تشویش۔ انہیں زیادہ سے زیادہ پریکٹس، تکنیک اور قوت کے ساتھ کھیل دکھانے کے لئے تیار کرتی ہے۔
قارئین !یہ بات یاد رکھیں کہ اگرتشویش نارمل سطح سے بڑھ جائے یا تشویش میں حقیقت پسندی اور عمل نہ رہے تو تشویش ذہنی مرض میں تبدیل ہوجاتی ہے اور فرد کا ذہنی سکون تباہ کردیتی ہے پھر اس کی ذہنی اور جسمانی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وہ کسی کام کی طرف متوجہ نہیں ہوپاتا اور عملی طور پر بھی کسی کام کو صحیح طور پر نہیں کرپاتا۔ ایسے فرد کی سوچ اور عمل میں مطابقت نہیں ہوتی، وہ سوچتا تو بہت کچھ ہے، اور سوچ میں کامیابی، خوشیاں، سب کچھ حاصل کرلیتا ہے مگر جب اسے حقیقت کا سامنا ہوتا ہے تو یہ صورت حال اس کے لئے بہت تلخ ہوتی ہے۔ وہ خود کو دوسروں سے بہت پیچھے پاتا ہے۔ مقابلے کی دوڑ میں بھی شامل نہیں ہوپاتا جبکہ اس کے ہم عمر اور ہم عصر بہت آگے جاچکے ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال اسے نفسیاتی تشویش کی طرف لے جاتی ہے۔ اسے مسائل پر قابو پانے کےلئے کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ جس قدر اپنی خواہشات اور مسائل کے بارے سوچتا ہے۔ اس کی تشویش میں اضافہ ہوجاتا ہے، کیونکہ اس ساری صورت حال میں عمل کہیں بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی بامقصد کوشش، اس طرح ان کی روزمرہ زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے کیونکہ اضطراب اور تشویش کی صورتحال صلاحیتوں کو بے پناہ نقصان پہنچاتی ہے۔
قارئین !آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ جب بھی اعصابی امراض، امراض قلب، فشار خون میں مبتلا افراد ڈاکٹرز کے پاس جاتے ہیں تو وہ دوائی دینے سے پہلے ایسے مریضوں کو تاکید کرتے ہیں کہ آپ پریشا ن ہونا چھوڑدیں مت سوچیں، اچھی طرح نیند لیں۔ خود کو پرسکون رکھیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ تقریباً تمام طبی امراض کی وجہ فرد کی ذہنی پریشانیاں، تشویش اور اضطراب ہے۔ یہی کمیاں جسمانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتی ہوں کہ بعض افراد بغیر کسی ظاہری اور حقیقی پریشانی کے کسی تشویش میں مبتلا رہتے ہیں جوکہ حقیقت میں موجود ہی نہیں ہوتی۔ مثلاً کہیں ان کے بیوی بچے بیمار نہ ہوجائیں جوکہ بالکل صحت مند ہیں یا شاید ان کا ایکسیڈنٹ نہ ہوجائے یا ایسے حادثے کے بارے میں سوچتا ہے جو رونما نہیں ہوا۔ ایسے افراد اکثر گھریلو معاملات اور دفتری معاملات کے بارے میں پریشان رہتے ہیں۔ اسے ہوائی پریشانی بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس کا کوئی وجود نہ ہو۔ ایسے افراد خواہ مخواہ پریشانیوں کا تذکرہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں، ایسا کرنے سے انہیں توجہ ملتی ہے۔ ہمدردی حاصل ہوتی ہے۔ انہیں موجودہ وقت اور زندگی سے لطف اندوز ہونا نہیں آتا۔ ہر وقت مستقبل کے بارے میں پریشان رہتے ہیں۔ ان کی تشویش کا مرکز ایسی اشیاءہوتی ہیں جن کو وہ حاصل نہیں کرسکتے۔ حفظان صحت کے اصولوں پر کاربند رہنا چاہئے۔ لباس صاف ستھرا اور جاذب نظر، موسم کے مطابق ہونا چاہئے۔ خصوصاً رنگوں کے استعمال میں بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ دن کے وقت ہلکے رنگوں اور شام کے بعد گہرے رنگ شخصیت پر اچھا تاثر چھوڑتے ہیں چونکہ ہمارے موسم بہت شدید ہیں خصوصاً موسم گرما۔ لہٰذا آپ کے جسم اور منہ سے بدبو نہیں آنی چاہئے اور آپ کو معلوم ہے کہ آدھی صحت کا راز سادہ خوراک کھانے اور اعتدال پسند زندگی گزارنے میں ہے۔ جو لوگ اعتدال کو چھوڑ دیتے ہیں وہ پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 706
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں